سنو
میں تم سے ”کچھ“ نہیں کہنا چاہتا
بلکہ بہت ”کچھ“ کہنا چاہتا ہوں!
کسی دن سب ”کچھ“ چھوڑ چھاڑ کر
اپنی مصروفیت میں سے ”کچھ“ وقت نکالو
اور ”کچھ“ دیر کے لئے میرے پاس آٶ
”کچھ“ باتوں کا اظہار کروں
جو ”کچھ“ عرصے سے میرے دل میں دبی ہیں
جو ”کچھ“ ہو
اس میں ہماری ہی ”کچھ“ غلطیاں تھیں
ویریوں نے جو ”کچھ“ کیا، سو کیا
مگر ہم نے اپنی محبت کی بقاء کے لیے
”کچھ“ نہیں کی!
ہم نے وعدے تو کئے
مگر ”کچھ“ ارادے نہ کئے
ہم نے پیار تو کیا
مگر ”کچھ“ اعتبار نہ کیا
ہم نے ہمیشہ ایک دوسرے کو اپنا سمجھا
صرف سمھ
مانا نہیں، جانا نہیں
اب اگر ہمارے پاس کچھ ہے
تو وہ ہیں خاموش لب
لیکن اگر لب بھی ”کچھ“ دیر اور خاموش رہے!
تو سب ”کچھ“ بدل جائے گا
اور ہمارے پاس سوائے
سسکیوں کے ”کچھ“ نہیں بچے گا
”کچھ“ لوگ ابھی تمھیں
اور بھی سبز باغ دکھائیں گے
لیکن اگر ”کچھ“ کرنا ہے
تو تم نے کرنا ہے
یہ فیصلہ بھی تمھارے ہاتھ ہے
کہ سبز باغ زیادہ دیرپا ہیں
یا ہماری محبتوں کی چند بیلیں؟؟؟
دیکھو ابھی ”کچھ“ حالات بدلیں ہیں
اور حالات ہمیشہ ہی بدلتے ہیں
مگر ”کچھ“ جذبات کبھی نہیں بدلتے
اگر ان میں ”کچھ“ سچائی ہو
یہ سب ”کچھ“ میرے پیار کا آئند ہے
”کچھ“ پل جو جب بھی ڈھلیں گے
”کچھ“ سانس جو ”کچھ“ دن چلیں گے
اور جو ”کچھ“ میرے پیار کا حاصل ہے
سب ”کچھ“ تمھارے نام لکھ دیا ہے
مجھے دنیا میں خدا سے
اور تم سے
سوائے تمھاری وفا کے
”کچھ“ نہیں چاہئے
اگر میرے لئے ”کچھ“ کرنا چاہو
تو احسان یہ کرنا
”کچھ“ بھی ہو
مجھے دل سے بے گھر نہیں کرنا
کیونکہ یہ معاشرہ اکیلی جاں کو
جینے نہیں دیت!!!
”طارق اقبال حاوی“