ریگزاروں کے مسافر کو بھی چھل دیتے ہیں
کچھ شجر سایہ ہی د یتے ہیں نہ پھل دیتے ہیں
لے کے اک عزم مصمم جو بڑھاتے ہیں قدم
رخ بھی حالات کا وہ لوگ بدل د یتے ہیں
ان کو نا واقف آداب چمن ہی کہئے
کھلنے سے پہلے جو کلیوں کو مسل دیتے ہیں
حال دل اپنا بیاں کیسے کریں کس سے کریں
دیکھ کر آتا ہمیں آپ تو چل د یتے ہیں
ان کی الفت کو بھلا کیسے بھلا دے د نیا
تحفئہ عشق میں جو تاج محل د یتے ہیں
خواب رنگیں تو فقط خواب ہے مفلس کے لئے
اپنے ارماں جو جوانی میں کچل د یتے ہیں
خود پہن لیتے ہیں پیرا ہن معنی اشعار
ہم حسن لفظوں کو بس رنگ غزل د یتے ہیں