آ ج خود ہی کو دل نے جہاں کا خوار کہہ دیا
کہنا تھا اس پار شعر ہم نے اس پار کہہ دیا
طلب تھی گلاب کو بس ایک ہی رضا کی
اور بلبل نے قبول ہے لگاتار کہہ دیا
شجر نے بھیگنے کی خواہش جو ظاہر کی
ابر نے بے رخی سے انکار کہہ دیا
نہیں کہنا صرف تمھارا تکیئہ کلام نہیں ہو سکتا
اک بار نہیں میں نے بھی نہیں سو بار کہہ دیا
ذہن تو مان ہی چکا تھا بس دل کو خوشفہمی تھی
آ ج اس دل نے بھی تجھے بے وفا اے یار کہہ دیا