کچھ نہ کرتے کرتے بھی کچھ نہ کچھ تو کر ہی گئے
بہکے بگڑے اور سنبھلے سنبھلے اور سنور ہی گئے
دنیا کے رنگ و آہنگ میں ہم بھی ہنستے ہنستے
خود کو رنگنا چاہا رنگتے رنگتے رنگ ہی گئے
کیا جانیں کب پلک جھپکتے ہم بھی گم ہو جائیں
گم ہونے سے پہلے پہلے اپنے دل میں اتر ہی گئے
کب تک غنچہ کی صورت خوشبو کو دامن میں رکھیں
یہ سوچا اور گل کی صورت ہم بھی کھل کر بکھر ہی گئے
کون کہے گا تم بن عظمٰی یہ نگری سنسان
چھوڑ پرایا دیس چنانچہ واپس اپنے گھر ہی گئے