کچھ نہ کچھ لکھا جائے گا تم کاغذ قلم اٹھاؤ تو
ہو سکتا ہے وہ مل جائے تم اپنا قدم بڑھاؤ تو
آخر کب تک خفتہ قومیں خواب خرگوش میں رہتی ہیں
اپنی ہمت اور کوشش سے تم سوئے ہوؤں کو جگاؤ تو
سنا ہے شب کے آنگن میں سجدے میں جھکنے والے
انمول گوہر بن جاتے ہیں کبھی ایسے اشک بہاؤ تو
مایوس نہ ہو اے ہمراہی رکھ یا خدا کی ذات بھی ہے
وہ سب کی دعائیں سنتا ہے تم اپنا دامن پھیلاؤ تو
یہ مال و متاع اس دنیا کا دنیا میں ہی رہ جائے گا
کچھ زاد سفر اس جیون سے عقبا کے لئے بچاؤ تو
دنیا وہ تماشہ دیکھے گی، جو دنیا کو دکھلاؤ گے
کیوں سب کے سامنے آتے ہو خود اپنا آپ چھپاؤ تو
پانے کی چاہت میں عظمٰی کچھ نہ کچھ کھونا پڑتا ہے
دنیا بھی تمہاری مانے گی پہلے خود کو سمجھاؤ تو