کھا جائیں نہ چیلیں ہی بیابان میں آنکھیں
رکھ لینا حفاظت سے قلمدان میں آنکھیں
خوشبو کی طرح پھیلی ہے کمرے میں بصارت
شب چھوڑ کیا کون یہ گلدان میں آنکھیں
کس طرز کی کاٹی گئیں فصلیں کہ نئے سال
گودام میں بازو ہیں تو کھلیان میں آنکھیں
گو میرے قدم شہر کی حد چھوڑ چکے ہیں
پھرتی ہیں ابھی تک تیرے دالان میں آنکھیں
نابینا جنم لیتی ہےاولا بھی اس کیش
جو نسل دیاکرتی ہے تاوان میں آنکھیں