کھلے آسمان تلے بھی سو نہیں پائی
خوشی کی محفل تھی میں رو نہیں پائی
خیال یار میں لگا گیا تھا دل اپنا
زندگی کی مستیوں میں کھو نہیں پائی
کیسے کیسے لگ گیے ہیں داغ زیست پر
جنہیں برسوں سے میں دھو نہیں پائی
اب تو ہر طرح سے کوشش کر لی مگر
میں اپنوں کا دل مو نہیں پائی
ہر کسی کو ملتا ہے ُاس کے کیے کا پھل
میں اپنے لیے سھک کا بوٹا بو نہیں پائی
آسوًں ، ُامیدوں سے زخم نہیں بھرتے
میں ابھی تک حقیقت کو چھو نہیں پائی