سکوت مرگ فضائے سخن پہ طاری ہے
نوائے تشنہ ء اظہار گرچہ جاری ہے
ستم ذدہ ہیں جو پوچھو بھی تو بتائیں کیا
کہ زیست کیسے کٹی ، کس طرح گزاری ہے
تمھیں ہو جیت مبارک مگر یہ غم کیسا
بساط عشق پہ بازی تو ہم نے ہاری ہے
مداوا کوئی نہیں زخم بھر نہیں پاتے
سنا ہے فصل بہاراں کی بھی تیاری ہے
ہوا سے کہہ دو پریشاں نہ اس کو آج کرے
کہ زلف ناز سے محبوب نے سنواری ہے
طوفاں کا ڈر ہے تو ساحل پہ کیوں نہیں تھہرے
یہ ناؤ تم نے سمندر میں خود اتاری ہے
لطافتوں کا اثر پتھروں کے شہر پہ کیا
اگائیں پھول جہاں پھولوں کی کیاری ہے
وہ ذوق علم و ادب ختم ہو گیا ، اب تو
ہر ایک شخص یہاں زر کا ہی پجاری ہے
سخن وروں سے کہاں داد کی طلب زاہد
کہ ان کو داد نہ دینے کی ہی بیماری ہے