ایک ہم نے ہی یہ انوکھی فطرت نہیں پائی
اس شہر میں ہر شخص ہی خوش فہم ہے بھائی
کوئی بھی اپنے آپ کو آزمایا نہیں کرتا
پر دوسروں کی فطرت سب نے ہی آزمائی
تنقید کیا توصیف کیا کیا داد و ملامت
چاہو تو برا کہہ لو چاہے کرو بھلائی
خود کو بھلا سمجھنا اوروں کو برا کہنا
انسانیت یہی ہے کیا ہے یہی بڑائی
استاد و بزرگوں نے نہ کسی تحریر نے
تقدیر کی ہر الجھن تدبیر نے سلجھائی
یوں تو ہر ایک سمت بڑی چہل پہل پے
لیکن درون خانہ چاروں طرف تنہائی
رنج مشقت سے اعمال و عبادت سے
آتی ہے ہاتھ معرفت و حکمت و دانائی
کبھی آئینہ دل کی کثافتیں دھو ڈالوں
پھر دیکھنا چہرے کی شادابی و رعنائی
عظمٰی خیال رکھنا ایسا بھی ہو جاتا ہے
کہ بات بنتے بنتے بن جائے نہ رسوائی