ہر اک بات کو قہقہوں میں اڑانا
کہاں کھو گیا بچپنے کا زمانہ
صبح سویرے باغوں میں جانا
پھولوں کی ہمراہی میں مسکرانا
پانی پہ کاغذ کی کشتی چلانا
ہر اک بات کو قہقہوں میں اڑانا
کہاں کھو گیا بچپنے کا زمانہ
وہ جھولے پنگوڑے غبارے ہمارے
کہاں رہ گئے جانے سارے کے سارے
لئے ہاتھوں میں ہاتھ وہ آنا جانا
وہ گلیوں بازاروں کے چکر لگانا
زمیں پر پڑی ریت کے گھر بنانا
ہر اک بات کو قہقہوں میں اڑانا
کہاں کھو گیا بچپنے کا زمانہ
وہ چیونگم سپاری چباتے ہوئے
کبھی منھ میں ٹافی دباتے ہوئے
سبھی دوستوں کو خوشی سے دکھانا
اکیلے نہیں سب کو مل کے کھلانا
ہر اک بات کو قہقہوں میں اڑانا
کہاں کھو گیا بچپنے کا زمانہ
عجب ہی مزہ تھا ہر اک بات میں
اٹھلایا کرتے تھے برسات میں
وہ بچوں کا سڑکوں پہ جا کر نہانا
کھڑے پانی سے وہ چھینٹے اڑانا
ہر ایک بات کو قہقہوں میں اڑانا
کہاں کھو گیا بچپنے کا زمانہ