کہاں یہ دِن ملیں گے پھر، کہاں یہ محفلیں ہوں گی
وہی تنہائی ہوگی ، چار سوُ پھر وحشتیں ہوں گی
محبت جِس قدر ہو گی بڑھیں گی نفرتیں اُتنی
بڑھیں گے فاصلے اُتنے ہی جِتنی قُربتیں ہوں گی
کویٔ صوُرت نہ اُترے گی تِرے بِن شیشۂ دِل میں
ہمارے سامنے گرچہ ہزاروں صوُرتیں ہوں گی
لبادہ اوڑھ رکھا ہے فقط صبر و قناعت کا
مِرا دِل چیر کے دیکھو ہزاروں حسرتیں ہوں گی
ضرورت ہے تو بس اک دیکھنے والی نظر کی ہے
زمیں کے ذرے ذرے میں خدا کی قدرتیں ہوں گی
ہمہی بیزار ہوں گے اِس زمانے سے مگر عذراؔ
ہمارے چار سو مانا جہاں کی رونقیں ہوں گی