تم سے کروں کہ چپ رہوں اک بات میرے دل میں ہے
کہو کہوں کہ نہ کہوں جو بات میرے دل میں ہے
کئی برسوں سے وہ جو خود سے کہے جاتا ہوں
تمہیں بتادوں میں ذرا جو بات میرے دل میں ہے
وہ ایک خواب جو برسوں میں پورا نہ ہوا
مکمل بھی نہیں ہوا اور نہ ہی ادھورا ہوا
وہ جو حسرت ایک حسرت میں ڈوبی رات ہے
وہ جو ادھوری سی اس رات کی اک بات ہے
وہی حسرت میں ڈوبی رات ادھوری سی وہ بات
جو اب تک میرے دل میں ہے
تم سے کروں کہ چپ رہوں اک بات میرے دل میں ہے
کہو کہوں کہ نہ کہوں جو بات میرے دل میں ہے
کئی برسوں سے وہ جو خود سے کہے جاتا ہوں
تمہیں بتادوں میں ذرا جو بات میرے دل میں ہے
کہاقنی بسوں پرانی سی مگر بہت قدیم نہیں
بس عام سی ہے کوئی زیادہ بہت عظیم نہیں
کسی شکاری کہ چنگل میں کوئی طائر تھا
بہت معصوم سا شکستہ اور گھائل تھا
بڑی حسرت سے دیکھتا تھا آسماں کی طرف
کبھی صیاد کی آنکھوں میں تکتا اس کا ظرف
اسی لمحہ کہیں سے روشنی ابھر آئی
امید آس بندھی اور آنکھ بھر آئی
ابھی اس روشنی کی سمت جھنکنے کو ہی تھا
پرندہ روشنی کا ہاتھ تھامنے ہی کو تھا
کہ آنکھ کھل گئی منظر نظر سے محو ہوا
بنا تکمیل کے آنکھوں سے خواب محو ہوا
نظر ابھی تلک بس ایک جستجو میں ہے
یہی ذرا سی بات ہے جو اب بھی دل میں ہے
پرندہ خواب روشنی وہ رات دل میں ہے
اسی چمکتی روشنی کی آرزو میں ہے
تم سے کروں کہ چپ رہوں اک بات میرے دل میں ہے
کہو کہوں کہ نہ کہوں جو بات میرے دل میں ہے
کئی برسوں سے وہ جو خود سے کہے جاتا ہوں
تمہیں بتادوں میں ذرا جو بات میرے دل میں ہے