ہمیں ایک دوسرے کا ہاتھ تھام کر چلنا ہے
دشوار ہو کہ سہل راستہ سفر ساتھ کرنا ہے
پتھروں سی راہیں ہوں یا کہکشاں سی راہگزر
پھولوں پہ نہیں ہم کو شعلوں پہ بھی چلنا ہے
سلگائی ہے جو ہم نے اپنے بھی تمہارے بھی
تنہا ہمیں اس آگ میں دن رات پگھلنا ہے
تاریک راستوں کو گر ضوفشاں کرنا ہے
بن کے دیا راہوں میں اب خود ہمیں جلنا ہے
ہم پر الزام وفاداری آتا ہے تو آجائے
ہم نے جفا کو اک دن الفت میں بدلنا ہے
کوئی ہمیں اس راہ سے بھٹکا نہیں سکتا
راہ وفا میں ہم کو آپ خود ہی سنبھلنا ہے
تنہائیوں کے غم سے پرخوف ہم نہیں
تنہائی کو یادوں سے محفل میں بدلنا ہے
کب تک قفس میں پنچھی یوں پھڑپھڑائے گا
صیاد کے چنگل سے اک روز نکلنا ہے
عظمٰی تمہاری جستجو صحرا کی نظر ہوگئی
اس ریت کے دریا کو سراب میں ڈھلنا ہے