خرد عبث ہی پریشاں ہے آشیاں نہ ملا
ہم اہل جوش و جنوں خوش ہیں سائباں نہ ملا
سنا تھا نقش کف پا پہ چلنا پڑتا ہے
بجز جبیں کے رہ عشق میں نشاں نہ ملا
ہماری فتح یقینی تھی معرکوں میں مگر
جلانے والا ہمیں کوئی کشتیاں نہ ملا
میں سب کو بھول رہا تھا کہ کوئی یاد آئے
کہیں پہ چاند تو روشن تھا آسماں نہ ملا
تجلیات کا محور صبا کا دل ٹھرا
وہ کہ رہے ہیں اسے کوئی آستاں نہ ملا