کیا ابھی سحر کا امکان نہیں کیا ابھی رات اور باقی ہے نشہ ہے نیند ہے خماری ہے ہاتھ میں جام لئے ساقی ہے وہم ہے یا کوئی حقیقت ہے جگمگایا وجودِ خاکی ہے