کیا خبر تھی دوستوں یہ حادثہ ہو جائے گا
میرے دل کو توڑ کر وہ غیر کا ہو جائے گا
جان سے زیادہ جسے چاہا تھا میں نے دوستوں
یہ نہیں سوچا تھا وہ پل میں جدا ہو جائے گا
پیار تو کر لو مگر اے دوستوں یہ جان لو
دیکھتے ہی دیکھتے وہ بے وفا ہو جائے گا
چاہیں جتنا پوج لو لیکن حقیقت ہے یہی
راہ کا پتّھر بھلا کیسے خدا ہو جائے گا
کون دشمن ہے وفا کا کون ہے جانِ وفا
آج لو اس بات کا بھی فیصلہ ہو جائے گا
اپنے مولا پر بھروسہ کیجیے اے دوستوں
چل پڑوگے تم جدھر خود راستہ ہو جائے گا
اب خدا کے واسطے نہ عشق کا چرچہ کرو
زخم پھر وشمہ کوئی دل کا ہرا ہو جائے گا