اُس کی چاہت کا بھرم کیا رکھنا
دشتِ ہجراں میں قدم کیا رکھنا
اپنے جیسا کوئی ملتا ہی نہیں
آنکھ میں دولتِ غم کیا رکھنا
بات چُپ رہ کے بھی ہو سکتی ہے
پاسِ قرطاس و قلم کیا رکھنا
آؤ کشکول کو نیلام کریں
قرضِ اربابِ کرم کیا رکھنا
فکر آرائشِ مقتل میں رہو
مہرو میزانِ علم کیا رکھنا
اُس کی یادوں کو غنیمت جانو
اس تعلق کو تو کم کیا رکھنا
ہنس بھی لینا کبھی خود پر محسن
ہر گھڑی آنکھ کو نم کیا رکھنا