کیا مسیحا مسیحا لگا رکھا ہے
بس اک سوانگ رچا رکھا ہے
اپنے اپنے دلوں کے بت خانے میں
سب ہی نے الگ ہی ُخدا رکھا ہے
کائنات کی اس ازلی دنیا میں
کیا پیمانہ معیار بنا رکھا ہے
اُجڑی اُجڑی اس دھرتی کی وادیوں میں
ُمفلسی کا اک جال بچھا رکھا ہے
اُس کو ٹکڑا روٹی کا ملتا ہے جس نے
اُن کے کلمے کا جھنڈا اٹھا رکھا ہے
یکبارگی کوئی چڑھا تھا صلیب پر
ہر مسلماں کو اب سولی پہ چڑھا رکھا ہے
اللہ اللہ کر پیارے بس د یکھتا جا
فضول کے ان جھگڑوں میں کیا رکھا ہے