کیسا ستم ہے آنکھوں کو دریا دیا گیا
مری مدتوں کی پیاس کو صحرا دیا گیا
مجھے روشنی کے نام پر دھوکا دیا گیا
جگنو دیکھا کے بس مجھے بہلا دیا گیا
غربت فریب رنج و الم اور بے بسی
ننھی سی میری جان کو کیا کیا دیا گیا
مجھ سے کہا گیا کہ کرو آسماں کی بات
لیکن مجھے زمین پر بیٹھا دیا گیا
دہشت گروں کو وشمہ نے بھیجا ہے بار بار
پیغام امن بار ہا ٹھکرا دیا گیا