کیسے جینا کس پہ مرنا تھا
یہ اِرادہ تو پہلے کرنا تھا
شام ہونے سے پہلے راہی نے
راستے کو عبور کرنا تھا
آشیانہ بنانے کی خاطر
تنکا تنکا جمع تو کرنا تھا
شعلہ بے نور نہ رہے تاکہ
تیل سے کچھ تو دیا بھرنا تھا
اپنی پرواز کے دِفاع کے لئے
تَند ہواؤں سے آپ لڑنا تھا
بیچ دریا میں ڈوبنا تو نہ تھا
کنارے تک چناب ترنا تھا
جس پہ تکیہ کیا پیاری سوھنی
اَسی گھڑے کو دغا کرنا تھا
عاشقی کا یہی دستور رہا
جسے چاہا اَسی پہ مرنا تھا
عاشقوں کا یہی اَصول رہا
ہوجانا ہے فنا عشق امر کرنا ہے
جب یہ چاہا کہ عشق کر گزریں
کر گزرنا تھا نہیں ڈرنا تھا
گَل و گَلزار ہونا چاہا تھا اگر عظمٰی
خاک ہو کر ذرا سا وقت بسر کرنا تھا