مجرم نے اک دیکھا خواب
خواب میں اُس نے دیکھی تاب
تاب جو اُس کے اندر تھی
جب وہ جاگا تو پچھتایا
کیوں میں جاگا
خواب میں کتنی لزّت تھی
جیتے جی تو مجھ کو پہلے
ایسا نہیں محسوس ہوا
اس نے اک مجنوں سے پوچھا
“تم جو گھومتے رہتے ہو
تم نے کبھی دیکھا ہے ایسا خواب کہ جس میں گرمی ہو“
مجنوں نے اک نظر اٹھاکر
دیکھی مجرم کی پیشانی
اور بولا کہ
“میں کیا جانوں
کیسے خواب اور کیسی تاب
ہاں اک آگ ہے میرے دل میں
جس کی محض تابش سے ہی
سات زمینیں
جل سکتی ہیں
اور اس آگ کی حدّت سے
ایک اک لمحہ جاگتا ہوں
اور خود بن جاتا ہوں لذّت
میں کیا جانوں
کیسے خواب
کیسی تاب“
ندیم مراد