کیسے ہو اعتبار عدو تیرے پیار پر
ہوتا بھی ہے گماں کبھی غنچے کاخار پر
دل میں چھپی خلش توہےچہرے سے ہی عیاں
نقلی سا مسکراتے ہو تم اپنی ہار پر
یہ رہنما ہیں یا کہ لٹیرے ہیں ملک کے
نطریں جمائے بیٹھے ہیں سب اقتدار پر
اس نے مرے عدو پہ مرے راز کھول کر
کاری ضرب لگائ مرے اعتبار پر
گدھ اور شیر دونوں کے کھانےمیں فرق ہے
رکھ نہ نظر تو اوروں کے مارے شکار پر
کیسے گزارتےہیں بھلا زیست پوچھیے
جن کا گزر ہے مانگ کےوہ بھی ادھارپر
جب روح پر خزاں ہوتو لحجہ بھی خار خار
ہونٹوں پہ پھول کھلتے ہیں دل کی بہار پر
برسات کی یہ رات گزر جائے نہ کہیں
ملہار کے سروں کو بجاؤ ستار پر
زاہد جو مشکلات ہیں کردے گا ھل انھیں
کامل یقین ہے مجھے پروردگار پر