کیوں اتنا بولتے ہو تُم؟
مجھے خاموشی سے وحشت ہے
کیوں لہجے میں سوگواری ہے
نہیں ،تمھارا کوئی وہم ہوگا
اُداسی کیوں یہ اندر بستی ہے
سایہ کسی آسیب کا ہوگا
تم تو موسموں کے دیوانے تھے
ہاں رنگ شائد اُجڑ گئے ہیں
اور پھولوں سے محبت
خوشبو ساری بکھر چُکی ہے
شاعری سے رغبت اب کیسی ہے
مجھے اب شعر نہیں آتے
مگر تمھیں تو لکھنے کا جُنوں تھا
کیا کروں الفاظ نہیں ملت
معنی سارے کھو گئے ہیں
کسی کو یاد کرتے ہو
نہیں ،فر صت ہی نہیں ملتی
دیکھو ،تمھاری آنکھیں ہمیشہ بولتی ہیں
بتاؤ یہ کیوں نم سی ہیں
یہ ایسی ہی رہتی ہیں
اثر شائد کسی وبا کا ہو
اچھا، تمھیں تو جھوٹ سے نفرت تھی
ہاں اب بھی ہے
مگر جب سچ نہ راس آئے تو