کیوں دل ترے خیال کا حامل نہیں رہا
یہ آئینہ بھی دید کے قابل نہیں رہا
صحرا نوردیوں میں گزاری ہے زندگی
اب مجھ کو خوف دورئ منزل نہیں رہا
ارباب رنگ و بو کی نظر میں خدا گواہ
کب احترام کوچۂ قاتل نہیں رہا
زنداں میں خامشی ہے کوئی بولتا نہیں
حد ہو گئی کہ شور سلاسل نہیں رہا
مانوس اس قدر ہوئے دریا کی موج سے
ساحل بھی اعتبار کے قابل نہیں رہا
اس وقت مجھ کو دعوت جام و سبو ملی
جس وقت میں گناہ کے قابل نہیں رہا