کیوں دل ترے خیال کا حامل نہیں رہا

Poet: ساغر خیامی By: سلمان علی, Rawalpindi

کیوں دل ترے خیال کا حامل نہیں رہا
یہ آئینہ بھی دید کے قابل نہیں رہا

صحرا نوردیوں میں گزاری ہے زندگی
اب مجھ کو خوف دورئ منزل نہیں رہا

ارباب رنگ و بو کی نظر میں خدا گواہ
کب احترام کوچۂ قاتل نہیں رہا

زنداں میں خامشی ہے کوئی بولتا نہیں
حد ہو گئی کہ شور سلاسل نہیں رہا

مانوس اس قدر ہوئے دریا کی موج سے
ساحل بھی اعتبار کے قابل نہیں رہا

اس وقت مجھ کو دعوت جام و سبو ملی
جس وقت میں گناہ کے قابل نہیں رہا

Rate it:
Views: 338
07 Feb, 2022