کیوں نہ اشک ہوں رواں رلائے جب کوئی
اور کیوں نہ دل دکھے دکھائے جب کوئی
رات کیسے کٹتی ہے کانٹوں کی سیج پہ
پونم کی رات میں کبھی یاد آئے جب کوئی
کیونکر کسی کو کوئی ذہن سے نکال دے
آ کر خیال سے کہیں نہ جائے جب کوئی
کیونکر برا لگے ہمیں ہم معترض کیوں ہوں
محبوب کے محب کبھی گن گائے جب کوئی
عظمٰی ہوا کے دوش پہ اڑتے ہیں خیالات بھی
نظروں میں سماجائے دل کو بھائے جب کوئی