کیوں نہ اُگلیں میری نظمیں میرے اشعار لہُو
روز ہوتے ہیں یہاں جو بھرے بازار لہُو
سوچتا ہوں کہ بھلا جُرم ہے کیا بچوں کا
جانے کیوں کرتے ہیں بچوں کا وہ ہر بار لہُو
اب گُلابوں کی بھی پہچان بھلا کون کرے
اب کے آتا ہے نظر سارا جو گُلزار لہُو
جانے کب امن کی اس ملک میں آۓ گی فضا
جس کی گلیاں بھی لہُو ہیں در و دیوار لہُو
پہلے اخبار میں ہوتی تھی لہُو کی سرخی
اب اُگلتا ہے یہاں پورا ہی اخبار لہُو
میں جو مر جاؤں تو اوروں کے یہ کام آۓ گا
اپنے بستر پہ گیا چھوڑ یُوں بیمار لہُو
جانے کیوں کانپ اٹھا پِھر سرِمقتل قاتِل
تڑپا کل نوکِ سِناں پر جو وفادار لہُو
گندے نالے میں بہا دینا لہُو میرا کہیں
کیونکہ جچتا نہیں مقتل میں گنہگار لہُو
کربلا نے روایت ہے سکھائی ہم کو
ظُلم کے سامنے جھکتا نہیں خودار لہُو
اس لیۓ ماتمِ شبّیر کا قائل ہوں میں
دے گا محشر میں گواہی یہ عزادار لہُو
کوئی تو لے گا مرے قتل کا بدلہ بــــــــــاقرؔ
ہضم کر پائیں گے کب تک میرا غدار لہُو