کیوں نہ اک محفلِ حسد سجا دیں
اور اس میں سخن سرا بٹھا دیں
شعر گوئی ہو ، شعر خوانی ہو
پھر مکرر جناب فرما دیں
بنے تحسین و آفریں کا سما
واہ ، ارشاد ، خوب کی صدا دیں
کون سمجھے ہماری شاعری کو
یہ ضروری نہیں ہے سمجھا دیں
ہم چراتے نہیں ہیں اپنا ہے
یاد بھی ہے زبانی ، کیا سنا دیں ؟
کس نے علمِ عروض ہے سیکھا ؟
شعر کہنے سے پہلے بتا دیں
ان کا مقصد تو صرف شہرت ہے
خدمتِ خلق تو نہیں ، گلہ دیں
سچی باتیں تو کڑوی لگتی ہیں
سارا میٹھا ہی آپ کو کِھلا دیں
آپ بھی ان کے یار ہیں عامرؔ
اپنی اصلاح بھی تو فرما دیں