کیوں کر تجدیدِ نِکاح کا نہیں امکاں، نانا؟
کب تک نانی سے نِبھاؤ گے یوں پیماں، نانا؟
بچن، تم سے ہے بڑا، پھر بھی ہے ہیرو آتا
عمر میں اُس کی ہیں ہیروئینز ابھی بچیاں، نانا
کتنے بڈھوں کی ٹھَرَک دیکھ کے یاد آتا ہے
“ٹرائی“ کرنے میں ہے آخر کوئی نُقصاں، نانا؟
تم بھی کیا سادہ ہو، لوگوں کی سُن لیتے ہو
خِضاب کیا کر نہیں سکتا تمہیں جواں، نانا؟
مُوڈ بن جائے تو لکھنا اپنے نواسے کو
میری پہچان کی ہیں کئی اِک بُڈھیاں، نانا
آخری وقت میں ہوتی ہے ضرورت سب کو
کب تک بازار کی کھاؤ گے روٹیاں، نانا؟
دوسری شادی کوئی جُرم نہیں ہے ہرگز
کب تک اس دِل میں نہاں رکھو گے ارماں، نانا؟
سدا مغرب کی ہوس، کیونکر جواں رہتی ہے؟
کیوں ہے مشرق بھلا بے طرح پشیماں، نانا؟
تھام لو ہاتھ کسی بیوہ یا مطلقہ کا
تاکہ بس جائے تمہارا بھی آشیاں، نانا
پیرانہ سالی میں اولاد ہوئی بے پرواہ
کون بنتا ہے بھلا درد کا درماں، نانا
شعر کی آڑ میں سرور یہی سمجھاتا ہے
اب تو لے آؤ خدارا نانی اماں، نانا
(نوٹ :: ہم احمد فراز صاحب کو ہماری اس تخلیق کی (ہمارے تخیل میں آنے سے پیشتر ہی) پیروڈی لکھنے پہ معاف کرتے ہیں۔ قارئین بھی نوٹ فرما لیں)