گاؤں چھوڑا تو کئی آنکھوں میں کاجل پھیلا
شہر پہنچا تو کسی ماتھے پہ جھومر جھوما
زندگی تو نے مجھے مار لیا تھا لیکن
یہ تو میں تھا جو تیرے زندوں سے بہتر ہی جیا
اب ملے ہم تو کئی لوگ بچھڑ جائیں گے
انتظار اور کرو اگلے جنم تک میرا
وہ تو انسان تھی تیری یاد کی محویت میں
درد و دیوار کو سینے سے لگا کر چوما
آج کی شام دوبارہ نہ کبھی آئے گی
آج کی شام نہ یہ سوچ کہ کل کیا ہو گا
دکھ بھرا پیار سمندر کی طرح لا محدود
غم زدہ حسنِ رواں پانی میں گھلتا سونا
میرے ہاتھوں سے چھوٹا تھا ایک آئینہ
عمر بھر جس کو میری آنکھوں نے پلکوں سے چنا
رات خاموشی دل چھا گئی جب دنیا پر
کوئی بولا تھا بہت پاس وہ تم تھے یا خُدا
خُوبصورت ہے بہت پیار کی خوش فہمی بھی
بند پلکوں کو تیرے ہو نٹوں نے جیسے چوما
کوئی آیا تھا نہیں تیز ہوا تھی شاید
میز و فرش پر بکھری ہوئی ہے لو لیتا