گرتے ہیں اور گر کے سنبھل بھی رہے ہیں
ہم گردش ایام سے نکل بھی رہے ہیں
یہ جانتے ہیں کہ ان کی کوئی بھی منزل نہیں
تنہا ویران راستوں پہ چل بھی رہے ہیں
جہاں زندگی کو موت کے سائے ہراساں کرتے رہتے ہیں
وہ شہر حسن و خیال جنگ و جدال میں بدل بھی رہے ہیں
انسان ہی انسان کے دشمن بھی دوست بھی
یہ دشمن جاں زیست کو مچل بھی رہے ہیں
ہم زندگی اور موت کی ہمراہی میں عظمٰی
گھٹ کے مر گئے ہیں اور پل بھی رہے ہیں