گرد آلود کتابوں میں نظر آؤں گا
ایک دن میں بھی نصابوں میں نظر آؤں گا
مجھ سے ملنے کو بھی ترسیں گے یہ احباب مرے
جب میں مٹی کے حجابوں میں نظر آؤں گا
میری محفل میں کمی سب کو ہی تڑپاۓ گی
میں سوالوں نہ جوابوں میں نظر آؤں گا
ایک دن مجھ سے ہی منسوب وفائیں ہوں گی
میں محبت کی کتابوں میں نظر آؤں گا
عین ممکن ہے اگر ہجر نے تڑپایا تو
ڈوبتا میں بھی شرابوں میں نظر آؤں گا
بس یہی کہہ کے تو اس نے مرا دل توڑ دیا
کل سے میں تجھ کو نقابوں میں نظر آؤں گا
ارے پاگل مجھے کھنڈرات میں کیوں ڈھونڈتے ہو
میں جو ہوں پھول ، گلابوں میں نظر آؤں گا
میں نے سوچا بھی نہ تھا یار ترے ہجر میں، میں
ایک دن اتنے عذابوں میں نظر آؤں گا
جب بھی تم دل سے پکارو گے کہاں ہو باقرؔ
تجھ کو اے یار میں خوابوں میں نظر آؤں گا.
.