گذرے تری گلی سے تو بدنام ہو گئے
ہم پر ہزاروں قسم کے الزام ہو گئے
ساقی یہ تیری مست نگاہی کی جیت ہے
فتوے تمام شیخ کے ناکام ہو گئے
کانوں پہ ہاتھ دھرتے ہو الفت کے نام پر
لگتا ہے تم بھی واقف انجام ہو گئے
عشق بتاں سے پایا نہ حسن صنم سے کچھ
عاجز بتوں سے خالق اصنام ہو گئے
غفلت کی نیند میں تھے وہ صدیوں کا تھا خمار
آنکھیں کھلیں تو داخل اسلا م ہو گئے
نااتفاقیوں سے کہیں کے رہے نہ ہم
سینے میں تھے جو راز حسن عام ہو گئے