فضا سے خامشی کو دھو رہا ہے
سکوت دل سمندر ہو رہا ہے
سر مژگاں ہیں شبنم کی بہاریں
حریم دل میں کوئ رو رہا ہے
ہے اس کا عکس دھندلا آنسوؤں سے
مگر وہ آئینے کو دھو رہا ہے
الیکشن پر الیکشن ہو رہے ہیں
ہمارے ساتھ یہ کیا ہو رہا ہے
ہوا یہ سوچ کر ساکت ہوئی ہے
و ہاں صحرا میں کوئ سو رہا ہے
چلن اس معاشرہ کا عہد نو میں
وقار آدمیت کھو رہا ہے
نگہت یہ ہے کوئ کمزور لمحہ
جو برسوں کی ریاضت کو رہا ہے