گل ہی نہیں صلیب پہ سارا چمن چڑھا
کن فرقتوں کی بھینٹ مارا تن بدن چڑھا
جو جیتے جی برہنہ ہیں ان کو لباس دے
قبروں پہ چادروں کے نہ رنگیں کفن چڑھا
مر جائے یوں نہ ہو تیرے اندر کا آدمی
سوچوں کی سیڑھیوں پہ نہ اتنی گھٹن چڑھا
سرما کی رات گھر کے دریچے نہ بند کر
نخل بدن پہ چاند کی پہلی کرن چڑھا