گلوں کو کھلنے سے روکو گے تم بھلا کب تک
ملیں گے دل انھیں رکھو گے تم جدا کب تک
سنو ! حالات یہ بدلیں گے جبر کے اک دن
ناکردہ جرم کی کاٹیں گے ہم سزا کب تک
نصیب ایک نہ اک دن سنور ہی جائیں گے
رہیں گے ہم سے زمیں آسماں خفا کب تک
بہت سہے ہیں ستم حاکم وطن تیرے
یہ ظلم ہم پہ رہے گا ترا بتا کب تک
کبھی تو سامنے آئے گی بے گناہی بھی
بندھے گا ہم پہ مسلسل یہ افترا کب تک
چلو کہ صبر کا اچھا صلہ ہی پائیں گے
وفا کے بدلے میں آخر تری جفا کب تک
کبھی تو ہم کو بھی عزت سے تم پکارو گے
کہو گے ہم کو سر عام یوں برا کب تک
منا ہی لیں گے تمھیں ایک دن مرے نغمے
یہ روٹھنا بھی مری جان جاں ترا کب تک