ہم بھی ہیں بھید میں گمنام ہیں مگر
خواہشیں نہیں ہیں ارمان ارمان ہیں مگر
چلے تھے جوش مے زندگی کی راہ میں
کچھ خواب آنکھوں میں اور دل میں چاہتیں
حوصلے بھی تھے بلند ارادوں کے ساتھ میں
سفر تو ہے اب بھی مستقل پھر سوچتے ہیں کیوں مگر
کیا یہی ہے وو دگر جس پی چلے تھے ہم مگر
جانے کیا ہمنے کیا جانے کیا لکیروں مے تھا
زندگی نے جو دیا ہمنے بھی وہی لیا
احساس کیوں ہے پھر یہ ہر پھر
ہم نے کیا حاصل کیا
جب پانا تھا یہی اس سفر
رفتہ رفتہ زندگی جب بڑھتی ہے یوں آگے
پھر کیوں کوئی اس قدر وقت کے پیچھے بھاگے
آج اگر نہ مل سکا تو غم ہے کیا
کل کی امید میں ایک نئی شروعات
کرتے ہیں ہم پھر مگر
ہم نے جو کی تھی کوششیں
رنگ وہ نہ لا سکی
کمی کہیں تو رہ گی
جو منزلیں دور ہوتی گی
ہاتھ خالی رہ گئے اس اندھیری راہ مے
روشنی کی اب بھی ہے درکار ہمیں کیوں مگر
ہم بھی ہیں بھید میں گمنام ہیں مگر
خواہشیں تو نہیں ارمان ہیں مگر