گنہگار نہیں پھر بھی گنہگار رہی
اپنی اک خطاء کے عواض میں شرم سار رہی
پھولوں کی زمین تھی میرے چلنے سے پہلے
قدم ُاٹھاتے ہی کانٹوں کی دلدار رہی
پرندے بھی چلے گئے شام ہوتے ہی
میں تنہا اپنے گھر میں بیمار رہی
ہاتھ تو بڑھائے لیکن خدا سے کیا مانگتی
میں خالی ہاتھوں کو دیکھ کر اشک بار رہی
ُاس کا سینہ چھوڑ کر سارے پتھر توڑ دیے
میں پتھر کے موم بننے کی طلبگار رہی
ُاس نے پھر سے جینے کی دعا دے دی
جبکہ موت کی خاطر ہر پل میں تیار رہی
کیسے ملتا ہے بھلا خدا اس دنیا میں لکی
میں ہر وقت ڈھونڈتی بس وہ تار رہی