گِر جائیں زمیں پہ تو سنبھالے نہیں جاتے
بازار میں دُکھ درد، اُچھالے نہیں جاتے
جاتے نہیں صحراؤں کو ہم عشق گرِفتہ
جب تک دلِ مجنوں کی دُعا لے نہیں جاتے
اب مجھ سے اِن آنکھوں کی حفاظت نہیں ہوتی
اب مجھ سے تِرے خواب سنبھالے نہیں جاتے
آنکھوں سے نکلتے ہو، مگر دھیان میں رکھنا
تم ایسے کبھی دل سے نکالے نہیں جاتے
ایسا بھی نہیں، چھوڑ کے جاتے نہیں خُوباں
جاتے ہیں، مگر، لوٹنے والے نہیں جاتے
جنگل کے یہ پودے ہیں اِنہیں چھوڑ دے نیئر
غم آپ جواں ہوتے ہیں، پالے نہیں جاتے