گھر سے میں جب بھی اکیلا نکلا
مجھ سے پہلے مرا سایہ نکلا
پھاڑ کر دامن صحرا نکلا
میرے اندر سے جو دریا نکلا
اک تبسم جو ملا تھا مجھ کو
وہ بھی اک زخم تمنا نکلا
جس پہ کل سنگ ملامت برسے
آج وہ دار پہ عیسیٰ نکلا
آئنہ دیکھا جو عریاں ہو کر
جسم ہی جسم کا پردا نکلا
جس نے یہ بھیڑ لگا رکھی تھی
خود وہ اس بھیڑ میں تنہا نکلا
چہرہ ایجاد ہے آئینے کی
آئنہ نکلا تو چہرہ نکلا
آج اک خط کو جو کھولا قیصرؔ
اس میں سورج کا سراپا نکلا