خشک آنکھوں میں برسات دے رہے ہیں
میرے مقدرمیں اندھیری رات دے رہے ہیں
گھر پہ میسر نہیں دو وقت کی روٹی بھی
یہ نئی نئی رسومات دے رہے ہیں
حبس دولت کی بڑھتی جا رہی ہے
لوگ رشتوں کو مات دے رہے ہیں
پھول مانگنے والوں کے ہاتھوں میں
سوکھے ہوئے پات دے رہے ہیں
گھر کو آگ لگی ہے او ر یہ لوگ
ہواؤں کو جذبات دے رہے ہیں
عثمان ظلم پہ خاموش رہ کر ہم
ظالموں کا ساتھ دے رہے ہیں