ھاتھوں سے اپنے رخسار کو چھپاتے کیوں ہو
شرمندہ نہیں مجھ سے تو پھر آنکھ چراتے کیوں ہو
آنسو آنکھوں میں میری دیکھ کر روتے ہو تم بھی
بھر آتا ہے دل تو پھر دل کو دکھاتے کیوں ہو
کہتے ہو کہ میں تمھارے مقدر میں ہی نہیں
تو بے معنی آس پھر ہمیں لگاتے کیوں ہو
کس جرم کی سزا ہے یہ اور کہاں کا ہے دستور
سمجھتے نہیں اپنا تو پھیر احساس اپنائیت دلاتے کیوں ہو
مر مر کہ روز مجھے ہی جینے کو کہتے ہو
دے کر تسلی مجھے تو پھر خود کو رلاتے کیوں ہو
اب کر بھی لو اقرار محبت تم بھی میری طرح
کرتے نہیں پیار تم تو پھر پیار جتاتے کیوں ہو
کاش کہ تم سے محبت ہی نا ہوئی ہوتی اے تنویر
بے بسی میں تنہا پھریہ جملہ دہراتے کیوں ہو