ہاوی ہم پہ یہ غم نہ ہو جائیں
دور زندگی سے ہم نہ ہو جائیں
در پہ دیوانے پڑے رہتے ہیں
جب تک ان کے کرم نہ ہو جائیں
ایسے ذلفوں کو نا بکھیرا کر
ختم ان سے یہ خم نہ ہو جائیں
قصہء_ یار نہ سنا قاصد
میری آنکھیں ہی نم نہ ہو جائیں
ہم کو نا دیکھ اتنی الفت سے
ہم تمھارے صنم نہ ہو جائیں
باہر چہرہ نہ لا نقابوں سے
جل کے عاشق بھسم نہ ہو جائیں
باقر اتنا بھی خوش رہا نا کر
نۓ غموں کے جنم نہ ہو جائیں