کیوں تو نے دل کو لگایا ہے ایک شاعر کے
کہ مفلسی میں تجھے کچھ بھی دے نہیں سکتا
یہ سیم و زر کا جہاں ہے
تو سوچ لے تو ذرا
دوچار دن کی محبت کا
فائدہ کیا ہے
میں چاہتا ہوں بنا لوں
تجھے شریک حیات
مگر تو چھوٹے سے گھر میں
نہ خوش رہے گی کبھی
آسائشوں کی طلب گار تو رہے گی سدا
ہے اونچ کی دنیا
تو چھوڑ دے گی مجھے
جدید دور مین الفت سے کام چلتا نہیں
ہو پاس عہدہ و پیسہ
تو بات بنتی ہے
کہاں تلک تو مرے پیار ہی سے
بہلے گی
کہے گی کار نہیں
میرے پاس بنگلہ نہیں
نہ کر سکیں گے جو بجلی کا بل
ادا دونوں
محبتوں کو کہاں تک نبھائیں گے دونوں
ابھی تو اور بہت سے بلوں کا ذکر نہیں
جنھیں ادا بھی جو کر دیں تو
روٹی چلتی نہیں
کرا سکوں گا نہ شاپنگ
نہ ہوٹلنگ تجھ کو
نہ لا سکوں گا میں میک اپ کی
مہنگی چیزیں کبھی
تجھے بنایا ہے قدرت نے ایک شہزادی
مگر شاہانہ سے ملبوس
کیسے دوں گا تجھے
یہ سوچ کر میں بہت
دور تجھ سے رہتا ہوں
تو چھوڑ دے مجھے تنہا یہ تجھ سے کہتا ہوں
ہاں تجھ کو پیار کروں گا سدا خیالوں میں
اداس ہو کے بہت مفلسی کے حالوں میں
کیوں تو نے دل کو لگایا ہے ایک شاعر سے
کہ مفلسی میں تجھے کچھ بھی دے نہیں سکتا