جو بزم میں بیٹھتا تھا ہٹ کر
وہ رہ گیا خود میں ہی سمٹ کر
یہ بدلیوں سے نہیں اندھیرا
ہاں چاند نکلا ہے آج گھٹ کر
وفا کریں گے تمھیں سے جاناں
رہیں گے اوروں میں ہم نہ بٹ کر
یہ مشکلیں ہار مان لیں گی
مقابلہ تم کرو تو ڈٹ کر
کوئی نہ دے گا تمھارا حصہ
تو کر لو حاصل اسے جھپٹ کر
وہ آئے تو آئے کیسے اول
جو امتحاں دے کتابیں رٹ کر
ہے تیرے پیروں کے نیچے جنت
رہوں گا ماں ان سے میں لپٹ کر
جو راستہ چھوڑا ہم نے زاہد
نہ اس کو دیکھا کبھی پلٹ کر