ہجر کا ناگ تو پتھر گھائل کر دیتا ہے
سونے جیسے شخص کو پیتل کر دیتا ہے
میرے عشق میں شاید کوئی کمی ہوئی ہو
تیرا حسن تو اب بھی پاگل کردیتا ہے
ایسی لذت کہیں نہیں ملتی، شاید وہ
اپنا پیار بھی چائے میں شامل کر دیتا ہے
دل میرا ویران ہوا تو حیرت کیسی
ہجر کا زہر تو دریا کو تھل کر دیتا ہے
مجھ ضدی کو رب بھی راضی کر نہ پائے
لیکن تیری آنکھ کا کاجل کر دیتا ہے
تیرے لمس کا جادو بھی کیسا جادو ہے
جس کو چُھو لے اس کو صندل کر دیتا ہے
تیرا چہرہ ہر چہرے پر چھا جاتا ہے
یہ منظر ہر منظر اوجھل کر دیتا ہے
آنکھ کے ریگستان کو تیری یاد کا بادل
چُھو جائے تو پل میں جل تھل کر دیتا ہے