ہجر کے جام سے سیراب رہا کرتے تھے
موسمِ غم میں نمویاب رہا کرتے تھے
دِید کی شرط نہ تھی عشق کے افسانے میں
ہم تجھے سوچ کے شاداب رہا کرتے تھے
دشت ہیں اب مری آ نکھیں تو کرم ہے تیرا
ورنہ پہلے یہاں سیلاب رہا کرتے تھے
تتلیاں تھیں تری آنکھیں کہ جنہیں پھول سے لب
بڑھ کہ چھو لینے کو بے تاب رہا کرتے تھے