ہجوم غم جاوداں ہو رہا ہے
مرے صبر کا امتحاں ہو رہا ہے
فسانہ ترے عشق کا کہہ رہا ہوں
زمانہ مرا ہم زباں ہو رہا ہے
بس اک میرے ہی آشیاں کی خلش سے
جسے دیکھیے باغباں ہو رہا ہے
نہ ڈوبے کہیں آرزوؤں کی کشتی
مرا بحر غم پھر رواں ہو رہا ہے
ذرا باغباں ہو گیا ہے جو غافل
ہر اک پھول اک آشیاں ہو رہا ہے
تری راہ میں کارواں زندگی کا
غبار پس کارواں ہو رہا ہے
نشیمن کے تنکوں سے پھوٹے ہیں غنچے
مرا آشیاں گلستاں ہو رہا ہے