ہجوم فکر میں اظہار کو ترستے ہیں
حروف نوک زباں پہ مری لرزتے ہیں
میں اپنے آپ کو اک اجنبی سا لگتا ہوں
جنوں میں ایسے بھی لمحے کبھی گزرتے ہیں
سمندروں کو ضرورت ہے ابر نیساں کی
کیوں میرے گھر پہ یہ بادل سدا برستے ہیں
غبار راہ میں ہم خود کو ڈھوندنے والے
کہاں تلا ش تری منزلوں کو کرتے ہیں
ہوس کے کعبے میں یکسو حریص دنیا ہیں
خدا سے کہنے کی حد تک تو لوگ ڈرتے ہیں
نہ دیکھ اہل جنوں کے لباس کو زاہد
یہ خاک اوڑھ کے بنتے ہیں اور سنورتے ہیں