نہ تو زمیں کے لئے ہے نہ آسماں کے لئے جہاں ہے تیرے لئے تو نہیں جہاں کے لئے رہے گا راوی و نیل و فرات میں کب تک تیرا سفینہ کہ ہے بحر بے کراں کے لئے