یہ جرم بھی میں نے کیا ہے ،قصور میں نے کیا
ہر ایک دوست پہ ہر دم غرور میں نے کیا
تمام شہرمیں بد نام ہو رہا تھا کوئی
اس لیے تو اسے خود سے دور میں نے کیا
نصیب مجھ کو کہا ہوسکی کوئی راحت
کہیں پہ دشت کہیں یم عبور میں نے کیا
یہ اخیتار تجھے دے دیا محبت میں
خود اپنی ذات کا یہ شہشہ چور ٰؐمیں نے کیا
نگاہِ ہجر میں زندہ رہوں تو جی نہ سکوں
گناہ مرنے کا میرے حضور میں نے کیا
تمہاری دید کی خواہش پہ اے مری وشمہ
تمہاری آنکھ کو الفت کا نور میں نے کیا